پاتا نہیں ہوں اور کسی کام سے لذت
جو کچھ کہ میں پاتا ہوں ترے نام سے لذت
کیفیتیں اس دیدۂ میگوں سے جو پائیں
پائی نہ کبھی بادے سے اور جام سے لذت
ظاہر ہے تری نرگس مخمور سے مستی
ٹپکے ہے ترے لعل مے آشام سے لذت
پاتا ہوں مزا بیکلی اور درد کا ایسا
پاوے ہے کوئی جیسے کہ آرام سے لذت
ؔرکھتا ہے ہوس بوسے کی تیرے شہ عالم
پاوے گا بہت تیرے اس انعام سے لذت
غزل
پاتا نہیں ہوں اور کسی کام سے لذت
آفتاب شاہ عالم ثانی