پاتا ہوں اضطراب رخ پر حجاب میں
شاید چھپا ہے دل مرا ان کی نقاب میں
سوئے فلک وہ دیکھیں اگر پیچ و تاب میں
برپا ہو حشر گہن لگے آفتاب میں
وہ چاندنی میں رخ سے ہٹا دیں اگر نقاب
لگ جائیں چار چاند رخ ماہتاب میں
اے ناخدائے کشتئ دل دیکھ بھال کے
طوفاں چھپے نہ ہوں کہیں قلب حباب میں
صبر آزما نگاہوں کا صدقہ ادھر بھی دیکھ
پھر کچھ کمی سی پاتا ہوں اب اضطراب میں
اک تم ہی آئے درد کی دنیا بسا گئے
ورنہ رہا تھا کیا دل خانہ خراب میں
اقبالؔ ان کی مست نگاہوں کا فیض ہے
میرا جہان شوق ہے ڈوبا شباب میں
غزل
پاتا ہوں اضطراب رخ پر حجاب میں
اقبال حسین رضوی اقبال