EN हिंदी
پاس ہو کر سراب لگتا ہے | شیح شیری
pas ho kar sarab lagta hai

غزل

پاس ہو کر سراب لگتا ہے

میگی آسنانی

;

پاس ہو کر سراب لگتا ہے
ساتھ ہے اور خواب لگتا ہے

غیر کی بات جھٹ سے مانے گا
میرا کہنا خراب لگتا ہے

اس کے گھر ہے عجیب سی خوشبو
اور خود بھی گلاب لگتا ہے

مجھ کو ہی دے گیا اندھیرا کیوں
سب کو وہ ماہتاب لگتا ہے

وہ جو خوش خوش دکھائی دینے لگا
میرے غم کا جواب لگتا ہے