پانی کو پتھر کہتے ہیں
کیا کچھ دیدہ ور کہتے ہیں
خوش فہمی کی حد ہوتی ہیں
خود کو دانشور کہتے ہیں
کون لگی لپٹی رکھتا ہے
ہم تیرے منہ پر کہتے ہیں
ٹھیک ہی کہتے ہوں گے پھر تو
جب یہ پروفیسر کہتے ہیں
سب ان کو اندر سمجھے تھے
وہ خود کو باہر کہتے ہیں
تیرا اس میں کیا جاتا ہے
اپنے کھنڈر کو گھر کہتے ہیں
نظم سمجھ میں کب آتی ہے
دیکھ اس کو منتر کہتے ہیں
غزل
پانی کو پتھر کہتے ہیں
عادل منصوری