پا بہ دامن ہو رہا ہوں بسکہ میں صحرا نورد
خار پا ہیں جوہر آئینۂ زانو مجھے
دیکھنا حالت مرے دل کی ہم آغوشی کے وقت
ہے نگاہ آشنا تیرا سر ہر مو مجھے
ہوں سراپا ساز آہنگ شکایت کچھ نہ پوچھ
ہے یہی بہتر کہ لوگوں میں نہ چھیڑے تو مجھے
باعث واماندگی ہے عمر فرصت جو مجھے
کر دیا ہے پا بہ زنجیر رم آہو مجھے
خاک فرصت برسر ذوق فنا اے انتظار
ہے غبار شیشۂ ساعت رم آہو مجھے
ہم زباں آیا نظر فکر سخن میں تو مجھے
مردمک ہے طوطیٔ آئینۂ زانو مجھے
یاد مژگاں میں بہ نشتر زار سودائے خیال
چاہئے وقت تپش یک دست صد پہلو مجھے
اضطراب عمر بے مطلب نہیں آخر کہ ہے
جستجوئے فرصت ربط سر زانو مجھے
چاہئے درمان ریش دل بھی تیغ یار سے
مرم زنگار ہے وہ وسمۂ ابرو مجھے
کثرت جور و ستم سے ہو گیا ہوں بے دماغ
خوب رویوں نے بنایا غالبؔ بد خو مجھے
فرصت آرام غش ہستی ہے بحران عدم
ہے شکست رنگ امکاں گردش پہلو مجھے
ساز ایمائے فنا ہے عالم پیری اسدؔ
قامت خم سے ہے حاصل شوخیٔ ابرو مجھے
غزل
پا بہ دامن ہو رہا ہوں بسکہ میں صحرا نورد (ردیف .. ے)
مرزا غالب