اوجھل ہوں نگاہوں سے مگر دل میں پڑے ہو
لیلیٰ کی طرح کون سے محمل میں پڑے ہو
در پردہ سہی سحر نظارہ کے اثر سے
سو طرح سے تم دیدۂ غافل میں پڑے ہو
کھلنے لگے اسرار وفا دیدہ و دل پر
جس دن سے غم ہجر کی مشکل میں پڑے ہو
آوارگئ دل بھی گئی قید وفا بھی
جس دن سے محبت کے سلاسل میں پڑے ہو
ہر لحظہ بدلتی ہوئی دنیا کے مکینو
کیا جانئے تم کون سی منزل میں پڑے ہو
کس جرم کی تعذیر یہ کس ڈھب کی سزا ہے
لذت کش تنہائی ہو محفل میں پڑے ہو
کس طرح نہ فریاد کا پھیلائیں یہ دامن
تم گل ہو کہ ہر خواب عنادل میں پڑے ہو
منزل کی طلب ساتھ ہی سرگرم سفر ہے
دریا ہو مگر حلقۂ ساحل میں پڑے ہو
ہر شے میں نظر آتا ہے خود اپنا ہی چہرہ
آئینے کے تم جیسے مقابل میں پڑے ہو
کہتا ہے ندیمؔ آج مجھے دیدۂ بے دار
تم برق ہو اور خرمن حاصل میں پڑے ہو

غزل
اوجھل ہوں نگاہوں سے مگر دل میں پڑے ہو
صلاح الدین ندیم