EN हिंदी
نور مہ کو شب تہ ابر تنک کیا لاف تھا | شیح شیری
nur-e-mah ko shab tah-e-abr-e-tunak kya laf tha

غزل

نور مہ کو شب تہ ابر تنک کیا لاف تھا

ممنونؔ نظام الدین

;

نور مہ کو شب تہ ابر تنک کیا لاف تھا
بال اس مکھڑے سے اٹھ جاتے تو مطلع صاف تھا

صافی دلغزند کی کیا تھی دم بوس و کنار
بوسہ کو مشکل ٹھہرنا سینہ سے تا ناف تھا

اک نگہ کا دور سے بھی آج کل محروم ہے
دل کہ تیرا مدتوں خوکردۂ الطاف تھا

ہو در مے خانہ پر بے دخت رز بیٹھے ہوئے
حضرت ممنوںؔ یہی کیا شیوۂ اشراف تھا