EN हिंदी
نور اندھیرے کی فصیلوں پہ سجا دیتا ہوں | شیح شیری
nur andhere ki fasilon pe saja deta hun

غزل

نور اندھیرے کی فصیلوں پہ سجا دیتا ہوں

نتن نایاب

;

نور اندھیرے کی فصیلوں پہ سجا دیتا ہوں
میں سیاہ بخت چراغوں کو جلا دیتا ہوں

پہلے اک جسم بناتا ہوں کسی پھول پہ پھر
ایک چہرا کسی پتھر پہ بنا دیتا ہوں

دن نکلتے ہی کسے ڈھونڈنے جاتا ہوں میں
رات کے پچھلے پہر کس کو صدا دیتا ہوں

ایک عرصے سے غم ہجر میں مصروف ہے تو
آ مرے دل میں تجھے کام نیا دیتا ہوں

مجھ سا سادہ بھی کوئی ہوگا زمانے میں کہ میں
اپنے قاتل کو بھی عمروں کی دعا دیتا ہوں

بہتے دریا کا بدن ڈھانک کے خشک آنکھوں سے
موم کے قلب کو پتھر کہ قبا دیتا ہوں

مستقل راہ سخن کا ہوں مسافر نایابؔ
گر تھکن لکھ دوں ورق پر تو مٹا دیتا ہوں