نمود و بود کو عاقل حباب سمجھے ہیں
وہ جاگتے ہیں جو دنیا کو خواب سمجھے ہیں
کبھی برا نہیں جانا کسی کو اپنے سوا
ہر ایک ذرے کو ہم آفتاب سمجھے ہیں
عجب نہیں ہے جو شیشوں میں بھر کے لے جائیں
ان آنسوؤں کو فرشتے گلاب سمجھے ہیں
زمانہ ایک طرح پر کبھی نہیں رہتا
اسی کو اہل جہاں انقلاب سمجھے ہیں
انہیں کو دار بقا کی ہے پختگی کا خیال
جو بے ثباتی دہر خراب سمجھے ہیں
شباب کھو کے بھی غفلت وہی ہے پیروں کو
سحر کی نیند کو بھی شب کا خواب سمجھے ہیں
لحد میں آئیں نکیرین آئیں بسم اللہ
ہر اک سوال کا ہم بھی جواب سمجھے ہیں
اگر غرور ہے اعدا کو اپنی کثرت پر
تو اس حیات کو ہم بھی حباب سمجھے ہیں
نہ کچھ خبر ہے حدیثوں کی ان سفیہوں کو
نہ یہ معانی ام الکتاب سمجھے ہیں
کبھی شقی متمتع نہ ہوں گے دنیا سے
جسے یہ آب اسے ہم سراب سمجھے ہیں
مزیل عقل ہے دنیا کی دولت اے منعم
اسی کے نشے کو صوفی شراب سمجھے ہیں
حرارتیں ہیں مآل حلاوت دنیا
وہ زہر ہے جسے ہم شہد ناب سمجھے ہیں
انیسؔ مخمل و دیبا سے کیا فقیروں کو
اسی زمین کو ہم فرش خواب سمجھے ہیں
غزل
نمود و بود کو عاقل حباب سمجھے ہیں
میر انیس