نمو پزیر ہے اک دشت بے نمو مجھ میں
ظہور کرنے کو ہے پھر شہر آرزو مجھ میں
یہ زخم وہ ہے کہ جس کو دکھانا مشکل ہے
ٹپک رہا ہے مسلسل مرا لہو مجھ میں
رگوں میں چاپ سی کوئی سنائی دیتی ہے
یہ کون ہے کہ جو پھرتا ہے کو بہ کو مجھ میں
میں اپنے لہجے سے ہر لمحہ خوف کھاتا ہوں
چھپا ہوا ہے کوئی شخص تند خو مجھ میں
غزل
نمو پزیر ہے اک دشت بے نمو مجھ میں
سعود عثمانی