EN हिंदी
نمو پزیر ہے اک دشت بے نمو مجھ میں | شیح شیری
numu-pazir hai ek dasht-e-be-numu mujh mein

غزل

نمو پزیر ہے اک دشت بے نمو مجھ میں

سعود عثمانی

;

نمو پزیر ہے اک دشت بے نمو مجھ میں
ظہور کرنے کو ہے پھر شہر آرزو مجھ میں

یہ زخم وہ ہے کہ جس کو دکھانا مشکل ہے
ٹپک رہا ہے مسلسل مرا لہو مجھ میں

رگوں میں چاپ سی کوئی سنائی دیتی ہے
یہ کون ہے کہ جو پھرتا ہے کو بہ کو مجھ میں

میں اپنے لہجے سے ہر لمحہ خوف کھاتا ہوں
چھپا ہوا ہے کوئی شخص تند خو مجھ میں