نظام بست و کشاد معنی سنوارتے ہیں
ہم اپنے شعروں میں تیرا پیکر اتارتے ہیں
عجب طلسمی فضا ہے ساری بلائیں چپ ہیں
یہ کس بیاباں میں رات دن ہم گزارتے ہیں
غبار دنیا میں گم ہے جب سے سوار وحشت
عطش عطش دشت و کوہ و دریا پکارتے ہیں
مسافران گماں رہیں کیوں کمر خمیدہ
چلو یہ پشتارۂ تمنا اتارتے ہیں
جبین اہل غرض پہ کوئی مکالمہ کیا
جہاں تہاں حاجتوں کی جھولی پسارتے ہیں
غزل
نظام بست و کشاد معنی سنوارتے ہیں
امیر حمزہ ثاقب