نیاز و ناز کے ساغر کھنک جائیں تو اچھا ہے
ترے میکش ترے در پر بھٹک جائیں تو اچھا ہے
شرارے سوز پیہم کے بھڑک جائیں تو اچھا ہے
محبت کی حسیں راہیں چمک جائیں تو اچھا ہے
شراب شوق کے ساغر چھلک جائیں تو اچھا ہے
فضائیں بادہ خانے کی مہک جائیں تو اچھا ہے
ترے ہنسنے سے کلیوں کے حسیں رنگ تبسم میں
یہ قطرے خون ارماں کے چھٹک جائیں تو اچھا ہے
نمایاں ہیں سر مژگاں جو مایوسی کے عالم میں
وہ آنسو تیرے دامن پر ٹپک جائیں تو اچھا ہے
سر بزم محبت کاش ان آنکھوں کے درپن میں
محبت کے حسیں منظر چمک جائیں تو اچھا ہے
سر مے خانہ ساقی آج اذن عام ہو جائے
ترے مے نوش پی پی کر بہک جائیں تو اچھا ہے
محبت میں مرے بیتاب دل کی دھڑکنیں ہمدم
تری آغوش میں آ کر جو تھک جائیں تو اچھا ہے
مذاق بادہ نوشی تشنۂ احساس ہے ساقی
نئے انداز سے ساغر کھنک جائیں تو اچھا ہے
محبت میں نہیں ممکن پہنچنا حد منزل تک
مسافر تیری راہوں میں بھٹک جائیں تو اچھا ہے
نمایاں ہوں نہ آنکھوں سے کہیں عصمت محبت کی
یہ شعلے دل کے دل ہی میں دہک جائیں تو اچھا ہے
جو ہیں مرجھائی کلیاں زیبؔ دامان گلستاں میں
ہوا کے رخ بدلنے سے مہک جائیں تو اچھا ہے
غزل
نیاز و ناز کے ساغر کھنک جائیں تو اچھا ہے
زیب بریلوی