نشان زخم پہ نشتر زنی جو ہونے لگی
لہو میں ظلمت شب انگلیاں بھگونے لگی
ہوا وہ جشن کہ نیزے بلند ہونے لگے
نیام تیغ کی خنجر کے ساتھ سونے لگی
جہاں میں دوڑ کے پہنچا تھا وہ گھنیری چھاؤں
ذرا سی دیر میں زار و قطار رونے لگی
ندی ڈباؤ نہ تھی ڈوبنا پڑا لیکن
کنارے پہنچا تو شرمندگی ڈبونے لگی
سب اپنی پیاس بجھانے میں محو تھے ہمہ تن
ہوا یہ پھر کہ ہوا شعلہ خیز ہونے لگی
بڑھائے ہاتھ مدد کو دراز دستوں نے
تو اپنا بوجھ وہ چیونٹی کی طرح ڈھونے لگی
کچھ اور سرخ رو ہو کر اٹھے وہ مقتل سے
گھٹا بھی اٹھی تو دامن کے داغ دھونے لگی
وہ پیرزن جسے کانٹے نکالنے تھے خلشؔ
وہ ساحرہ کی طرح سوئیاں چبھونے لگی

غزل
نشان زخم پہ نشتر زنی جو ہونے لگی
بدر عالم خلش