نسبت وہی ماہ آسماں سے
لائیں تشبیہ رخ کہاں سے
مسی کی صفت بیاں نہ ہوگی
سوسن بھی کہے جو سو زباں سے
تشبیہ جو مانگ کی نہ ہاتھ آئے
لاؤں میں مانگ کہکشاں سے
سودا ہے جو بلبلوں کو گل کا
تنکے چن لائیں آشیاں سے
یہ حارج شب وہ مانع روز
درباں سے لڑوں کہ پاسباں سے
جیتیں گے نہ ہم سے بازیٔ عشق
اغیار کے پٹ پڑیں گے پانسے
ہے قدر سخن سخیؔ کو حاصل
یاں کے ہر پیر اور جواں سے
غزل
نسبت وہی ماہ آسماں سے
سخی لکھنوی