نکلے ہو کس بہار سے تم زرد پوش ہو
جس کی نوید پہنچی ہے رنگ بسنت کو
دی بر میں اب لباس بسنتی کو جیسے جا
ایسے ہی تم ہمارے بھی سینہ سے آ لگو
گر ہم نشہ میں بوسہ کہیں دو تو لطف سے
تم پاس منہ کو لا کے یہ ہنس کر کہو کہ لو
بیٹھو چمن میں نرگس و صد برگ کی طرف
نظارہ کر کے عیش و مسرت کی داد دو
سن کر بسنت مطرب زرین لباس سے
بھر بھر کے جام پھر مئے گل رنگ کے پیو
کچھ قمریوں کے نغمہ کو دو سامعہ میں راہ
کچھ بلبلوں کا زمزمۂ دل کشا سنو
مطلب ہے یہ نظیرؔ کا یوں دیکھ کر بسنت
ہو تم بھی شاد دل کو ہمارے بھی خوش کرو
غزل
نکلے ہو کس بہار سے تم زرد پوش ہو
نظیر اکبرآبادی