EN हिंदी
نکلا جو چلمنوں سے وہ چہرہ آفتابی | شیح شیری
nikla jo chilmanon se wo chehra aaftabi

غزل

نکلا جو چلمنوں سے وہ چہرہ آفتابی

فیاض فاروقی

;

نکلا جو چلمنوں سے وہ چہرہ آفتابی
اک آن میں افق کا آنچل ہوا گلابی

رخ سے نقاب ان کے سرکا ہوا ہے کچھ کچھ
دیوانہ کر نہ ڈالے یہ نیم بے حجابی

سو جام کا نشہ ہے ساقی تری نظر میں
کہتے ہیں بادہ کش بھی مجھ کو ترا شرابی

بیکار لگ رہی ہیں دنیا کی سب کتابیں
دیکھی ہے جب سے میں نے صورت تری کتابی

مرجھائے پھول سب ہیں کلیوں نے سر جھکائے
گلشن میں اک ستم ہے یہ تیری بے نقابی

کب چین سے رہا ہے یہ فکر کا پرندہ
فیاضؔ کی ہے فطرت کس درجہ اضطرابی