نکھرا خزاں سے رنگ بہاراں ہے ان دنوں
ویرانیوں سے بڑھ کے گلستاں ہے ان دنوں
کم مایہ مور مائل پرواز کیوں ہوئے
برہم بہت مزاج سلیماں ہے ان دنوں
پھر تیز ہو چلی ہے ہوائے فریب عشق
کتنا حسین عہد ہے پیماں ہے ان دنوں
شیخ آ گیا بلندیٔ ممبر سے فرش پر
پھر سازش بلند کا امکاں ہے ان دنوں
کھینچی عجیب کرب سے ساحل نے آہ سرد
گویا سکوت بر لب طوفاں ہے ان دنوں
پھر بڑھ کے ہم نے جام تمنا اٹھا لیا
پھر اک نئی شکست کا ارماں ہے ان دنوں
وہ دور حادثات جہاں ہے کہ الاماں
اپنا تو بس خدا ہی نگہباں ہے ان دنوں

غزل
نکھرا خزاں سے رنگ بہاراں ہے ان دنوں
سجاد باقر رضوی