نکلنے والے نہ تھے زندگی کے کھیل سے ہم
کہ چین کھینچ کے اترے تھے خود ہی ریل سے ہم
رہا نہیں بھی وہ کرتا تو مسئلہ نہیں تھا
فرار یوں بھی تو ہو جاتے اس کی جیل سے ہم
سخن میں شعبدہ بازی کے ہم نہیں قائل
بندھے ہوئے ہیں روایات کی نکیل سے ہم
جسے بھی دیکھو لبھایا ہوا ہے دنیا کا
سو بچ گئے ہیں میاں کیسے اس رکھیل سے ہم
اگر یہ طے ہے کہ فرہاد و قیس مردہ باد
تو باز آئے محبت کی داغ بیل سے ہم
اکیلے رہتے تو شاید نہ دیکھتا کوئی
ستارہ ہو گئے اک روشنی کے میل سے ہم
ہم ایسے پیڑ بس اتنی سی بات پر خوش تھے
کہ بیل ہم سے لپٹتی ہے اور بیل سے ہم
خدا نے قعر فلاکت میں ہم کو جھونک دیا
بگڑ گئے تھے سہولت کی ریل پیل سے ہم
غزل
نکلنے والے نہ تھے زندگی کے کھیل سے ہم
شوزیب کاشر