نکل تو آئے اس اجڑے ہوئے مکان سے ہم
تمام شب رہے محروم سائبان سے ہم
ہم اپنے وقت کے بالا بلند سورج تھے
غروب ہو گئے کس طرح درمیان سے ہم
ذرا بھی جس میں نصیحت ہو کچھ ہدایت ہو
نکال دیتے ہیں وہ بات اپنے کان سے ہم
دل و دماغ نہیں لفظ ہی کرشمہ ہے
تو کیا عجب کہ ہوئے قتل اس زبان سے ہم
وصال یار سے اچھا تو ہجر ہی ہے کہ اب
سکوں سے رہتے ہیں وہ بھی اور اپنی شان سے ہم
یہ سر بلند تو ہو جائے گا مگر جاویدؔ
ضرور جائیں گے اک روز اپنی جان سے ہم
غزل
نکل تو آئے اس اجڑے ہوئے مکان سے ہم
خواجہ جاوید اختر

