EN हिंदी
نکل جائے یوں ہی فرقت میں دم کیا | شیح شیری
nikal jae yunhi furqat mein dam kya

غزل

نکل جائے یوں ہی فرقت میں دم کیا

جگت موہن لال رواںؔ

;

نکل جائے یوں ہی فرقت میں دم کیا
نہ ہوگا آپ کا مجھ پر کرم کیا

ہنسے بھی روئے بھی لیکن نہ سمجھے
خوشی کیا چیز ہے دنیا میں غم کیا

مبارک ظالموں کو ظلم ہم پر
جو اپنا ہی کیا ہے اس کا غم کیا

مٹا جب امتیاز کفر و ایماں
مکان کعبہ کیا بیت الصنم کیا

نہیں جب قوت احساس دل میں
غم دنیا سرور جام جم کیا

گزر ہی جائیں گے غربت کے دن بھی
کریں دو دن کو اب اخلاق کم کیا

مری بگڑی ہوئی تقدیر بھی ہے
تمہارے طرۂ گیسو کا خم کیا

مری تقدیر میں لکھا ہے تو نے
بتا اے مالک لوح و قلم کیا

بھلا دے گی ہمیں دو دن میں دنیا
ہماری شاعری کیا اور ہم کیا

ہر اک مشکل کو حل کرتی ہے جب موت
کروں آگے کسی کے سر کو خم کیا

رواںؔ کے درد کا عالم نہ پوچھو
کوئی یوں ہوگا مست جام جم کیا