EN हिंदी
نکالو کوئی تو صورت کہ تیرگی کم ہو | شیح شیری
nikalo koi to surat ki tirgi kam ho

غزل

نکالو کوئی تو صورت کہ تیرگی کم ہو

روہت سونی تابشؔ

;

نکالو کوئی تو صورت کہ تیرگی کم ہو
ہمارا گھر ہی جلا دو جو روشنی کم ہو

ہمارے عہد کو راس آ گئی وہ باد سموم
کہ جس میں موت زیادہ ہو زندگی کم ہو

زمانے کیسے تجھے اپنی راہ پر لائے
ہم اہل عشق کی کیسے یہ بے بسی کم ہو

کسی طرح تو نمائش کا یہ نشہ اترے
کسی طرح تو دکھاوے کی زندگی کم ہو

یہ کیا ہمیشہ وفا و خلوص کی باتیں
کچھ ایسی بات کرو جو کہی سنی کم ہو

کوئی جتن تو کرو دوستو بلاؤ اسے
مری نگاہ کی اس کی یہ پیاس ہی کم ہو

تمہارا میرا یہ رشتہ عجیب ہے کہ جہاں
نہ دوستی ہی گھٹے اور نہ دشمنی کم ہو