EN हिंदी
نیند سے جاگی ہوئی آنکھوں کو اندھا کر دیا | شیح شیری
nind se jagi hui aankhon ko andha kar diya

غزل

نیند سے جاگی ہوئی آنکھوں کو اندھا کر دیا

سرمد صہبائی

;

نیند سے جاگی ہوئی آنکھوں کو اندھا کر دیا
دھند نے شفاف آئینوں کو دھندلا کر دیا

جوڑتا رہتا ہوں ٹوٹے رابطوں کا فاصلہ
مجھ کو لمحوں کے سرابوں نے اکیلا کر دیا

چیختا پھرتا ہے سڑکوں پر صداؤں کا ہجوم
کس خموشی نے گلی کوچوں کو بہرا کر دیا

ہر صدا ٹکرا کے بے حس خامشی سے گر پڑی
ہر صدا نے خامشی کو اور گہرا کر دیا

ہم نے پھر شفاف رستوں پر بچھائی آنکھ آنکھ
ہم نے پھر آئینۂ دل ریزہ ریزہ کر دیا

ہم نے پہنائے ہیں خواہش کو رگوں کے پیرہن
اس نے مانگی بوند ہم نے خون دریا کر دیا

شہر کی بیتاب گلیوں نے اگل ڈالے ہیں لوگ
کس نے میرے شہر میں مردوں کو زندہ کر دیا

جم گئے دیوار و در پر گونجتے لفظوں کے نقش
ایک ہنگامے نے سارا شہر گونگا کر دیا

آنکھ میں دھندلا گیا نکھرے ہوئے چہروں کا رنگ
جگمگاتے آئنوں کو کس نے میلا کر دیا

ایک اک چہرے پہ سرمدؔ پڑ گئی شک کی لکیر
جانے کس بد روح نے لوگوں پہ سایہ کر دیا