نیند سے آنکھ وہ مل کر جاگے
کتنے سوئے ہوئے منظر جاگے
کس کی خاطر ہے پریشاں تری زلف
ہم اسی فکر میں شب بھر جاگے
ضرب تیشہ کی صدا تھی کیسی
آنکھ ملتے ہوئے پتھر جاگے
یوں بھی گزرے ہیں شب و روز کہ ہم
نیند کی فکر میں اکثر جاگے
تشنگی نے جو نچوڑا دامن
کروٹیں لے کے سمندر جاگے
سیکڑوں رنگ ہیں آنکھوں میں مگر
ذہن میں ایک ہی پیکر جاگے
خواب کا جشن منانے کے لیے
لوگ سنتے ہیں کہ گھر گھر جاگے
ہم نے کاغذ پہ لکھا نام ترا
حرف و معنی کے مقدر جاگے
ان کو بیدار نہ کہیے شاعرؔ
لوگ جو خواب کے اندر جاگے

غزل
نیند سے آنکھ وہ مل کر جاگے
شاعر لکھنوی