EN हिंदी
نیند سے آنکھ وہ مل کر جاگے | شیح شیری
nind se aankh wo mil kar jage

غزل

نیند سے آنکھ وہ مل کر جاگے

شاعر لکھنوی

;

نیند سے آنکھ وہ مل کر جاگے
کتنے سوئے ہوئے منظر جاگے

کس کی خاطر ہے پریشاں تری زلف
ہم اسی فکر میں شب بھر جاگے

ضرب تیشہ کی صدا تھی کیسی
آنکھ ملتے ہوئے پتھر جاگے

یوں بھی گزرے ہیں شب و روز کہ ہم
نیند کی فکر میں اکثر جاگے

تشنگی نے جو نچوڑا دامن
کروٹیں لے کے سمندر جاگے

سیکڑوں رنگ ہیں آنکھوں میں مگر
ذہن میں ایک ہی پیکر جاگے

خواب کا جشن منانے کے لیے
لوگ سنتے ہیں کہ گھر گھر جاگے

ہم نے کاغذ پہ لکھا نام ترا
حرف و معنی کے مقدر جاگے

ان کو بیدار نہ کہیے شاعرؔ
لوگ جو خواب کے اندر جاگے