نیند سے آنکھ کھلی ہے ابھی دیکھا کیا ہے
دیکھ لینا ابھی کچھ دیر میں دنیا کیا ہے
باندھ رکھا ہے کسی سوچ نے گھر سے ہم کو
ورنہ اپنا در و دیوار سے رشتہ کیا ہے
ریت کی اینٹ کی پتھر کی ہو یا مٹی کی
کسی دیوار کے سائے کا بھروسا کیا ہے
گھیر کر مجھ کو بھی لٹکا دیا مصلوب کے ساتھ
میں نے لوگوں سے یہ پوچھا تھا کہ قصہ کیا ہے
سنگریزوں کے سوا کچھ ترے دامن میں نہیں
کیا سمجھ کر تو لپکتا ہے اٹھاتا کیا ہے
اپنی دانست میں سمجھے کوئی دنیا شاہدؔ
ورنہ ہاتھوں میں لکیروں کے علاوہ کیا ہے
غزل
نیند سے آنکھ کھلی ہے ابھی دیکھا کیا ہے
شاہد کبیر