EN हिंदी
نیند میں کھلتے ہوئے خواب کی عریانی پر | شیح شیری
nind mein khulte hue KHwab ki uryani par

غزل

نیند میں کھلتے ہوئے خواب کی عریانی پر

دلاور علی آزر

;

نیند میں کھلتے ہوئے خواب کی عریانی پر
میں نے بوسہ دیا مہتاب کی پیشانی پر

اس قبیلے میں کوئی عشق سے واقف ہی نہیں
لوگ ہنستے ہیں مری چاک گریبانی پر

نظر آتی ہے تجھ ایسوں کو شباہت اپنی
میں نے تصویر بنائی تھی کبھی پانی پر

ہم فقیروں کو اسی خاک سے نسبت ہے بہت
ہم نہ بیٹھیں گے ترے تخت سلیمانی پر

اس سے کچھ خاص تعلق بھی نہیں ہے اپنا
میں پریشان ہوا جس کی پریشانی پر

پاس ہے لفظ کی حرمت کا وگرنہ آزرؔ
کوئی تمغہ تو نہیں ملتا غزل خوانی پر