نیند کی آنکھ مچولی سے مزا لیتے ہیں
پھینک دیتے ہیں کتابوں کو اٹھا لیتے ہیں
بھولا بھٹکا سا مسافر کوئی شاید مل جائے
دو قدم چلتے ہیں آواز لگا لیتے ہیں
ابر کے ٹکڑوں میں خورشید گھرا ہو جیسے
کہیں کہتے ہیں کہیں بات چھپا لیتے ہیں
آندھیاں تیز چلیں گی تو اندھیرا ہوگا
خود بھی ایسے میں چراغوں کو بجھا لیتے ہیں
ورق زیست کو رکھنا بھی ہے سادہ محشرؔ
حال غم لکھتے ہیں اور اشک بہا لیتے ہیں
غزل
نیند کی آنکھ مچولی سے مزا لیتے ہیں
محشر عنایتی

