نیند کے آب رواں کو مات دینے آؤں گا
اے شب نا خواب تیرا ساتھ دینے آؤں گا
جب ستارے نقطۂ انفاس پر بجھ جائیں گے
میں خدا کو جان بھی اس رات دینے آؤں گا
نور کی موجیں مرے ہم راہ ہوں گی اور میں
رات کے ہاتھوں میں اپنا ہاتھ دینے آؤں گا
آسماں کے نیلے گنبد سے نکل کر ایک دن
میں زمیں کو قرمزی خیرات دینے آؤں گا
بند ہو جائیں گے جب سارے دریچے کشف کے
اس گھڑی میں چند امکانات دینے آؤں گا
غزل
نیند کے آب رواں کو مات دینے آؤں گا
رفیق سندیلوی