نیند جب خواب کو پکارتی ہے
رات اپنا لباس اتارتی ہے
میں اسے کیسے جیت سکتا ہوں
وہ مجھے اپنا جسم ہارتی ہے
میں دیا ہاتھ پر اتارتا ہوں
اور دیے پر وہ لو اتارتی ہے
میں اکیلا اسے پکارتا تھا
اب ہوا بھی اسے پکارتی ہے
وہ مرے ساتھ نیم خوابی میں
رات کی طرح دن گزارتی ہے
کچھ تو وہ بھیگتی ہے بارش میں
کچھ ہوا بھی اسے سنوارتی ہے
موم بتی سی انگلیوں کے ساتھ
وہ مرا بھیگا کوٹ اتارتی ہے
میرے ہونٹوں کی تشنگی قیصرؔ
سرخی لب سے وپ نکھارتی ہے
غزل
نیند جب خواب کو پکارتی ہے
نذیر قیصر