نیند آتی ہے مگر خواب نہیں آتے ہیں
مجھ سے ملنے مرے احباب نہیں آتے ہیں
شہر کی بھیڑ سے خود کو تو بچا لاتا ہوں
گو سلامت مرے اعصاب نہیں آتے ہیں
تشنگی دشت کی دریا کو ڈبو دے نہ کہیں
اس لیے دشت میں سیلاب نہیں آتے ہیں
ڈوبتے وقت سمندر میں مرے ہاتھ لگے
وہ جواہر جو سر آب نہیں آتے ہیں
یا انہیں آتی نہیں بزم سخن آرائی
یا ہمیں بزم کے آداب نہیں آتے ہیں
ہم نشیں دیکھ مکافات عمل ہے دنیا
کام کچھ بھی یہاں اسباب نہیں آتے ہیں
غزل
نیند آتی ہے مگر خواب نہیں آتے ہیں
رمزی آثم