نیند آ جائے تو لمحات میں مر جاتے ہیں
دن سے بچ نکلے بدن رات میں مر جاتے ہیں
کرتے ہیں اپنی زباں سے جو دلوں کو زخمی
دب کے اک دن وہ اسی بات میں مر جاتے ہیں
یاد آتی ہے تیری جب بھی گلابی باتیں
ڈوب کر تیرے خیالات میں مر جاتا ہوں
جب کبھی جاتے ہیں احباب کی شادی میں ہم
جانیں کیوں جاتے ہی صدمات میں مر جاتے ہیں
لڑنے کی تاب تو مٹی کے مکانوں میں ہے
کانچ گھر موسم برسات میں مر جاتے ہیں
تب کوئی ڈوب کے پانی میں فنا ہوتا ہے
خواب جب تلخئ حالات میں مر جاتے ہیں
جب ہوا باغ سے کہتی ہے خزاں آئی ہے
باغباں پھول لیے ہات میں مر جاتے ہیں
غزل
نیند آ جائے تو لمحات میں مر جاتے ہیں
فیض جونپوری