نیمچہ یار نے جس وقت بغل میں مارا
جو چڑھا منہ اسے میدان اجل میں مارا
مال جب اس نے بہت رد و بدل میں مارا
ہم نے دل اپنا اٹھا اپنی بغل میں مارا
اس لب و چشم سے ہے زندگی و موت اپنی
کہ کبھی پل میں جلایا کبھی پل میں مارا
کھینچ کر عشق ستم پیشہ نے شمشیر جفا
پہلے اک ہاتھ مجھی پر تھا ازل میں مارا
چرخ بد بیں کی کبھی آنکھ نہ پھوٹی سو بار
تیر نالے نے مرے چشم زحل میں مارا
اجل آئی نہ شب ہجر میں اور ہم کو فلک
بے اجل تو نے تمنائے اجل میں مارا
عشق کے ہاتھ سے نے قیس نہ فرہاد بچا
اس کو گر دشت میں تو اس کو جبل میں مارا
دل کو اس کاکل پیچاں سے نہ بل کرنا تھا
یہ سیہ بخت گیا اپنے ہی بل میں مارا
کون فریاد سنے زلف میں دل کی تو نے
ہے مسلمان کو کافر کے عمل میں مارا
عرس کی شب بھی مری گور پہ دو پھول نہ لائے
پتھر اک گنبد تربت کے کنول میں مارا
آنکھ سے آنکھ ہے لڑتی مجھے ڈر ہے دل کا
کہیں یہ جائے نہ اس جنگ و جدل میں مارا
ہم نے جانا تھا جبھی عشق نے مارا اس کو
تیشہ فرہاد نے جس وقت جبل میں مارا
نہ ہوا پر نہ ہوا میرؔ کا انداز نصیب
ذوقؔ یاروں نے بہت زور غزل میں مارا
غزل
نیمچہ یار نے جس وقت بغل میں مارا
شیخ ابراہیم ذوقؔ