نیم کے اس پیڑ سے اترا ہے جن
پھر کسی کے خون کا پیاسا ہے جن
گھر میں جتنے لوگ تھے وہ کھا گیا
میں بچا ہوں پر ابھی بھوکا ہے جن
پھونکتا ہوں پڑھ کے ساری آیتیں
اور مجھ کو دیکھ کے ہنستا ہے جن
کودتا ہے رات بھر وہ صحن میں
ہر جگہ گھر میں مرے پھرتا ہے جن
رات ڈائن ہے مچاں سے جھولتی
اور اس کے ساتھ ہی لٹکا ہے جن
گھر کی اک دیوار میں سوراخ تھا
ہاں اسی سوراخ سے نکلا ہے جن
دیکھ لینا اب نہیں چھوڑے گا وہ
اب مرے سینے پہ چڑھ بیٹھا ہے جن
غزل
نیم کے اس پیڑ سے اترا ہے جن
علی عمران