EN हिंदी
نگاہوں میں یہ کیا فرما گئی ہو | شیح شیری
nigahon mein ye kya farma gai ho

غزل

نگاہوں میں یہ کیا فرما گئی ہو

ضیا جالندھری

;

نگاہوں میں یہ کیا فرما گئی ہو
مری سانسوں کے تار الجھا گئی ہو

در و دیوار میں ہے اجنبیت
میں خود بھی کھو گیا تم کیا گئی ہو

پریشاں ہو گئے تعبیر سے خواب
کہ جیسے کچھ بدل کر آ گئی ہو

تمنا انتظار دوست کے بعد
کلی جیسے کوئی مرجھا گئی ہو

یہ آنسو یہ پشیمانی کا اظہار
مجھے اک بار پھر بہکا گئی ہو

ضیاؔ وہ زندگی کیا زندگی ہے
جسے خود موت بھی ٹھکرا گئی ہو