نگاہوں کا مرکز بنا جا رہا ہوں
محبت کے ہاتھوں لٹا جا رہا ہوں
میں قطرہ ہوں لیکن بہ آغوش دریا
ازل سے ابد تک بہا جا رہا ہوں
مبارک مبارک مری یہ فنائیں
دوعالم پہ چھایا چلا جا رہا ہوں
وہی حسن جس کے ہیں یہ سب مظاہر
اسی حسن میں حل ہوا جا رہا ہوں
یہ کس کی طرف سے یہ کس کی طرف کو
میں ہم دوش موج فنا جا رہا ہوں
نہ جانے کہاں سے نہ جانے کدھر کو
بس اک اپنی دھن میں اڑا جا رہا ہوں
مجھے روک سکتا ہو کوئی تو روکے
کہ چھپ کر نہیں برملا جا رہا ہوں
میرے پاس آؤ یہ کیا سامنے ہوں
مری سمت دیکھو یہ کیا جا رہا ہوں
نگاہوں میں منزل مری پھر رہی ہے
یوں ہی گرتا پڑتا چلا جا رہا ہوں
تری مست نظریں غضب ڈھا رہی ہیں
یہ عالم ہے جیسے اڑا جا رہا ہوں
کدھر ہے تو اے غیرت حسن خود میں
محبت کے ہاتھوں بکا جا رہا ہوں
نہ اوراک ہستی نہ احساس مستی
جدھر چل پڑا ہوں چلا جا رہا ہوں
نہ صورت نہ معنی نہ پیدا نہ پنہاں
یہ کس حسن میں گم ہوا جا رہا ہوں
غزل
نگاہوں کا مرکز بنا جا رہا ہوں
جگر مراد آبادی