EN हिंदी
نگاہیں نیچی رکھتے ہیں بلندی کے نشاں والے | شیح شیری
nigahen nichi rakhte hain bulandi ke nishan wale

غزل

نگاہیں نیچی رکھتے ہیں بلندی کے نشاں والے

طرفہ قریشی

;

نگاہیں نیچی رکھتے ہیں بلندی کے نشاں والے
اٹھا کر سر نہیں چلتے زمیں پر آسماں والے

تقید حبس کا آزادیاں دل کی نہیں کھوتا
قفس کو بھی بنا لیتے ہیں گلشن آشیاں والے

نہیں ہے رہبریٔ منزل عرفان دل آساں
بھٹک جاتے ہیں اکثر راستے سے کارواں والے

زمیں کی انکساری بھی بڑا اعجاز رکھتی ہے
جبیں سا ہو گئے خشکی پہ بحر بیکراں والے

کسی دن گرم بازار عقیدت ہو تو جانے دو
لگائیں گے مرے سجدوں کی قیمت آسماں والے

اجل کہتے ہیں جس کو نام ہے کمزور ہی دل کا
اسے خاطر میں کیوں لائیں حیات جاوداں والے

ہمیں طرفہؔ کی لے سے کیوں نہ ہو عرفان دل حاصل
سبک نغمے سناتے ہی نہیں ساز گراں والے