نگاہ و دل بھی قدم کی طرح ملا کے چلے
کس اتحاد سے راہی رہ وفا کے چلے
وہاں سے رو کے اٹھے اور مسکرا کے چلے
بلا کا غم تھا ہمیں تھے کہ غم چھپا کے چلے
فسردہ دل تھے مگر بزم کو ہنسا کے چلے
کلی نہ تم سے کھلی ہم چمن خلا کے چلے
لپٹ نہ جائے کہیں راہ پائے نازک سے
یہ آپ ہاتھ سے دامن کہاں چھڑا کے چلے
تمہیں نے دل کے اندھیرے کو دی ضیائے امید
تمہیں غریب کے گھر کا دیا بجھا کے چلے
کسی کو دیکھتے دیکھا اداس ہو گئے تم
نظر ہے کوئی کہاں تک بچا بچا کے چلے
نذیرؔ ہوں وہ شرابی بہ فیض پیر مغاں
نگاہ ڈال دوں جس پر وہ لڑکھڑا کے چلے
غزل
نگاہ و دل بھی قدم کی طرح ملا کے چلے
نذیر بنارسی