EN हिंदी
نگاہ کوئی تو طوفاں میں مہربان سی ہے | شیح شیری
nigah koi to tufan mein mehrban si hai

غزل

نگاہ کوئی تو طوفاں میں مہربان سی ہے

اتل اجنبی

;

نگاہ کوئی تو طوفاں میں مہربان سی ہے
ہر ایک موج سمندر کی پائیدان سی ہے

ہر ایک شخص کو گاہک سمجھ کے خوش رکھنا
یہ زندگی بھی ہماری کوئی دکان سی ہے

میں آسماں کی طرح مدتوں سے ٹھہرا ہوں
بدن میں پھر بھی زمیں جیسی کچھ تھکان سی ہے

دکھوں کا کیا ہے یہ آتے ہیں تیر کی مانند
خوشی ہمیشہ مرے واسطے کمان سی ہے

قدم سنبھال کے رکھنا حسین راہوں پر
پھسل گئے تو پھر آگے بڑی ڈھلان سی ہے

زبان منہ میں ہمارے تھی جب غلام تھے ہم
ہمارے منہ میں مگر اب تو بس زبان سی ہے

اب آئے دن ہی نکلتا ہے آنسوؤں کا جلوس
ہماری آنکھ مسلسل لہولہان سی ہے