نگاہ کوئی تو طوفاں میں مہربان سی ہے
ہر ایک موج سمندر کی پائیدان سی ہے
ہر ایک شخص کو گاہک سمجھ کے خوش رکھنا
یہ زندگی بھی ہماری کوئی دکان سی ہے
میں آسماں کی طرح مدتوں سے ٹھہرا ہوں
بدن میں پھر بھی زمیں جیسی کچھ تھکان سی ہے
دکھوں کا کیا ہے یہ آتے ہیں تیر کی مانند
خوشی ہمیشہ مرے واسطے کمان سی ہے
قدم سنبھال کے رکھنا حسین راہوں پر
پھسل گئے تو پھر آگے بڑی ڈھلان سی ہے
زبان منہ میں ہمارے تھی جب غلام تھے ہم
ہمارے منہ میں مگر اب تو بس زبان سی ہے
اب آئے دن ہی نکلتا ہے آنسوؤں کا جلوس
ہماری آنکھ مسلسل لہولہان سی ہے

غزل
نگاہ کوئی تو طوفاں میں مہربان سی ہے
اتل اجنبی