EN हिंदी
نگاہ شوخ جب اس سے لڑی ہے | شیح شیری
nigah-e-shoKH jab us se laDi hai

غزل

نگاہ شوخ جب اس سے لڑی ہے

داغؔ دہلوی

;

نگاہ شوخ جب اس سے لڑی ہے
تو بجلی تھرتھرا کر گر پڑی ہے

اسے بھی مجھ کو بھی ضد آ پڑی ہے
خرابی بیچ والوں کی بڑی ہے

قیامت میں قیامت کر گیا کون
کہ دل تھامے صف محشر کھڑی ہے

کریں کیا رند توبہ مے سے زاہد
کہ یہ تو ان کی گھٹی میں پڑی ہے

قدم جمتا نہیں تیری گلی میں
کسی بیتاب کی میت گڑی ہے

عدو بھی تنگ ہے ان کے ستم سے
اسے اپنی مجھے اپنی پڑی ہے

ابھی میں نے کیا تھا یاد اس کو
وہ آیا عمر قاصد کی بڑی ہے

بنا ہے مدعی پیغام بر بھی
جڑی ہے جب مری کھوٹی جڑی ہے

کیا ہے میں نے ضبط آہ جس دم
انی برچھی کی سینے میں گڑی ہے

گل بستر ستارے بن گئے ہیں
ترے ماتھے سے جب افشاں جھڑی ہے

یہ کہتا ہے مرا شوق شہادت
تری تلوار پھولوں کی چھڑی ہے

وہ روٹھیں غیر سے تو ہم منائیں
پرائی آفت اپنے سر پڑی ہے

تجھے دیتا ہوں اپنی جان بھی میں
مرے دل سے مری ہمت بڑی ہے

ٹلیں وہ کب جو دل لینے پہ اڑ جائیں
یہ کیا کچھ کھیل چوسر کی اڑی ہے

الٰہی کب سحر ہوگی شب ہجر
قیامت کی گھڑی ہے جو گھڑی ہے

بگڑ کر ہم نے سو الزام پائے
اب ان کی ہر طرح سے بن پڑی ہے

غزل اک اور بھی اے داغؔ لکھو
طبیعت اس زمیں میں کچھ لڑی ہے