EN हिंदी
نگاہ شوق کیوں مائل نہیں ہے | شیح شیری
nigah-e-shauq kyun mail nahin hai

غزل

نگاہ شوق کیوں مائل نہیں ہے

حامدی کاشمیری

;

نگاہ شوق کیوں مائل نہیں ہے
کوئی دیوار اب حائل نہیں ہے

سحر دم ہی گھروں سے چل پڑے سب
کوئی جادہ کوئی منزل نہیں ہے

سبھی کی نظریں ہیں کشتی کے رخ پر
مگر اس بحر کا ساحل نہیں ہے

کریں کس سے توقع منصفی کی
کوئی ایسا ہے جو قاتل نہیں ہے