EN हिंदी
نگاہ لطف سے تیری کہیں جو ہم ملتے | شیح شیری
nigah-e-lutf se teri kahin jo hum milte

غزل

نگاہ لطف سے تیری کہیں جو ہم ملتے

محمد نقی رضوی عصر

;

نگاہ لطف سے تیری کہیں جو ہم ملتے
ہماری زیست کے شام و سحر بہم ملتے

ہمیں فریب خرد نے ڈبو دیا ورنہ
ہمارے جام سے خود آ کے جام جم ملتے

کسی کے درد پہ ہنسنا کسی کے غم میں خوشی
یہ لمحے کاش زمانے کو کم سے کم ملتے

نہ ہوتے ہم تو زمانے کی آگہی کی قسم
نہ لوح ملتی نہ تم کو کہیں قلم ملتے

سر نیاز کی عظمت کے راز جب کھلتے
در بتاں سے نشان در حرم ملتے

تمام عمر گنوا دی تلاش میں لیکن
خدا نہ ملتا نہ ملتا کہیں صنم ملتے

کلام عصرؔ کی ارزش نہیں زمانے میں
کہیں جو ہوتی تو ہلکے سے کچھ ورم ملتے