نگاہ لطف سے تیری کہیں جو ہم ملتے
ہماری زیست کے شام و سحر بہم ملتے
ہمیں فریب خرد نے ڈبو دیا ورنہ
ہمارے جام سے خود آ کے جام جم ملتے
کسی کے درد پہ ہنسنا کسی کے غم میں خوشی
یہ لمحے کاش زمانے کو کم سے کم ملتے
نہ ہوتے ہم تو زمانے کی آگہی کی قسم
نہ لوح ملتی نہ تم کو کہیں قلم ملتے
سر نیاز کی عظمت کے راز جب کھلتے
در بتاں سے نشان در حرم ملتے
تمام عمر گنوا دی تلاش میں لیکن
خدا نہ ملتا نہ ملتا کہیں صنم ملتے
کلام عصرؔ کی ارزش نہیں زمانے میں
کہیں جو ہوتی تو ہلکے سے کچھ ورم ملتے

غزل
نگاہ لطف سے تیری کہیں جو ہم ملتے
محمد نقی رضوی عصر