EN हिंदी
نگاہ فطرت میں در حقیقت وہ زندگی زندگی نہیں ہے | شیح شیری
nigah-e-fitrat mein dar-haqiqat wo zindagi zindagi nahin hai

غزل

نگاہ فطرت میں در حقیقت وہ زندگی زندگی نہیں ہے

محمد ایوب ذوقی

;

نگاہ فطرت میں در حقیقت وہ زندگی زندگی نہیں ہے
جو دوسروں کے نہ کام آئے وہ آدمی آدمی نہیں ہے

کسی کے جلووں کا عکس رنگیں کبھی ہے دل میں کبھی نہیں ہے
میں کس طرح مان لوں کہ ذوق یقیں کی تجھ میں کمی نہیں ہے

پھر اور کیا ہے اگر زوال خودی و خود آگہی نہیں ہے
دل و نظر کو یہ کیا ہوا ہے کہیں بھی آسودگی نہیں ہے

زباں پہ رندان کم نظر کی شکایت ساقی ازل ہے
طلب سوا ہو جو ظرف دل سے ہوس ہے وہ تشنگی نہیں ہے

جو قلب کو زندگی نہ بخشے نظر کو کیف و خودی نہ بخشے
وہ ذوق سجدہ ہے ننگ سجدہ عبادت و بندگی نہیں ہے

حقیقتوں سے گریز انساں کا ایک احساس کمتری ہے
حیات بخشے جو ظلمتوں کو وہ روشنی روشنی نہیں ہے

مرا تصور ہے کائناتی شعور میرا جمالیاتی
مرے خیال و نظر میں ذوقیؔ کوئی بشر اجنبی نہیں ہے