جو بھلا ہے اسے برا مت کر
خود سے بھی بارہا ملا مت کر
یہ ہے بستی اداس لوگوں کی
قہقہہ مار کر ہنسا مت کر
باغ ہے دل فریب دونوں سے
پھول کو خار سے جدا مت کر
روز کی لعن طعن ٹھیک نہیں
گھر میں آئینے کو رکھا مت کر
چہرہ مہرہ بدلتا رہتا ہے
اتنی جلدی بھی فیصلہ مت کر
غزل
جو بھلا ہے اسے برا مت کر
ندا فاضلی