EN हिंदी
جو بھلا ہے اسے برا مت کر | شیح شیری
jo bhala hai use bura mat kar

غزل

جو بھلا ہے اسے برا مت کر

ندا فاضلی

;

جو بھلا ہے اسے برا مت کر
خود سے بھی بارہا ملا مت کر

یہ ہے بستی اداس لوگوں کی
قہقہہ مار کر ہنسا مت کر

باغ ہے دل فریب دونوں سے
پھول کو خار سے جدا مت کر

روز کی لعن طعن ٹھیک نہیں
گھر میں آئینے کو رکھا مت کر

چہرہ مہرہ بدلتا رہتا ہے
اتنی جلدی بھی فیصلہ مت کر