EN हिंदी
نیکی بدی کی اب کوئی میزان ہی نہیں | شیح شیری
neki badi ki ab koi mizan hi nahin

غزل

نیکی بدی کی اب کوئی میزان ہی نہیں

اشوک ساہنی

;

نیکی بدی کی اب کوئی میزان ہی نہیں
ایماں کی بات یہ ہے کہ ایمان ہی نہیں

اس دور بے ضمیر پہ کیا تبصرہ کروں
لگتا ہے میرے عہد میں انسان ہی نہیں

کیسے رفو کروں میں کہاں سے رفو کروں
دل بھی ہے میرا چاک گریبان ہی نہیں

روداد دل بھی ہے یہ غم کائنات بھی
میری غزل نشاط کا سامان ہی نہیں

برکت ہمارے رزق میں آئے گی کس طرح
گھر میں ہمارے جب کوئی مہمان ہی نہیں

لو وہ اذاں سے صبح کی تصدیق ہو گئی
گویا اب اس کے آنے کا امکان ہی نہیں