نیکی بدی کی اب کوئی میزان ہی نہیں
ایماں کی بات یہ ہے کہ ایمان ہی نہیں
اس دور بے ضمیر پہ کیا تبصرہ کروں
لگتا ہے میرے عہد میں انسان ہی نہیں
کیسے رفو کروں میں کہاں سے رفو کروں
دل بھی ہے میرا چاک گریبان ہی نہیں
روداد دل بھی ہے یہ غم کائنات بھی
میری غزل نشاط کا سامان ہی نہیں
برکت ہمارے رزق میں آئے گی کس طرح
گھر میں ہمارے جب کوئی مہمان ہی نہیں
لو وہ اذاں سے صبح کی تصدیق ہو گئی
گویا اب اس کے آنے کا امکان ہی نہیں
غزل
نیکی بدی کی اب کوئی میزان ہی نہیں
اشوک ساہنی