EN हिंदी
نے شکوہ مند دل سے نہ از دست دیدہ ہوں | شیح شیری
ne shikwa-mand dil se na az-dast-dida hun

غزل

نے شکوہ مند دل سے نہ از دست دیدہ ہوں

شیخ ظہور الدین حاتم

;

نے شکوہ مند دل سے نہ از دست دیدہ ہوں
اس بخت نارسا سے اذیت کشیدہ ہوں

کو خندہ کو تبسم و کو فرصت سخن
اس انجمن میں ہیں لب حسرت گزیدہ ہوں

نے کام کا کسی کے نہ مجھ کو کسی سے کام
حیراں ہوں کس لیے میں یہاں آفریدہ ہوں

ہستی کو نے ثبات نہ جینے کا اعتماد
کس کی امید پر کوئی دم آرمیدہ ہوں

میرا تو کام ایک پلک میں تمام ہے
مانند اشک بر سر مژگاں رسیدہ ہوں

گلچیں عبث نگاہ رکھے ہے مری طرف
میں اس چمن میں جوں گل رنگ پریدہ ہوں

سونپوں میں کیوں نہ اپنا گریباں اجل کے ہات
اے عمر زندگی سے میں دامن کشیدہ ہوں

اس واسطے تو قدر مری جانتا نہیں
ہاں ان ترے غلاموں میں بے زر خریدہ ہوں

میرا بھی دل شگفتہ کبھو ہو نسیم وصل
بہتوں کا اس چمن میں میں اب خارویدہ ہوں

پاس ادب سے اس کے قدم تک نہیں مجال
ورنہ نہ پا شکستہ نہ دست بریدہ ہوں

دشمن سے بھی تواضع میں رکھتا نہیں دریغ
تعظیم کو عدو کی میں تیغ خمیدہ ہوں

رونے تلک تو کس کو ہے فرصت یہاں سحاب
طوفاں ہوا بھی جو ٹک اک آب دیدہ ہوں

یاراں دماغ کو جو کروں تم سے اختلاط
اس دشت میں میں وحشیٔ از خود رمیدہ ہوں

کیا پوچھتے ہو درد کو حاتمؔ کے دوستاں
جو کچھ کہ ہوں سو ہوں غرض آفت رسیدہ ہوں