نظارۂ نگاہ کا عنواں بدل گیا
وہ کیا گئے کہ رنگ گلستاں بدل گیا
جوش جنون عشق کا ساماں بدل گیا
داماں پہ ہاتھ تھا کہ گریباں بدل گیا
محسوس کر رہا ہوں ہر انساں کو اجنبی
وہ کیا بدل گئے کہ ہر انساں بدل گیا
گزرا ہر انقلاب سے دور جنوں مگر
داماں بدل گیا کہ گریباں بدل گیا
وحشت نواز اب وہ نظارے نہیں رہے
نظریں بدل گئیں کہ بیاباں بدل گیا
اس چشم التفات کا عالم نہ پوچھئے
اکثر نظام گردش دوراں بدل گیا
کیا جانے صائبؔ آج یہ دوران عرض شوق
کیوں دفعتاً وہ چہرۂ خنداں بدل گیا

غزل
نظارۂ نگاہ کا عنواں بدل گیا
محمد صدیق صائب ٹونکی