نظروں کے گرد یوں تو کوئی دائرہ نہ تھا
اپنے سوائے کچھ بھی مگر سوجھتا نہ تھا
سب کھڑکیاں تھیں بند کوئی در کھلا نہ تھا
جاتے کہاں کہ خود سے پرے راستہ نہ تھا
کیا جانے کس خیال سے چپ ہو کے رہ گیا
ایسا نہیں کہ غم مجھے پہچانتا نہ تھا
ہونٹوں کے پاس آ نہ سکا جام عمر بھر
حالانکہ فاصلہ یہ کوئی فاصلہ نہ تھا
وہ جس نے زندگی کا مری رخ بدل دیا
وہ آپ تھے حضور کوئی دوسرا نہ تھا
پوچھی کسی نے راہ تو چپ ہو کے رہ گئے
کہتے بھی کیا کہ خود ہمیں اپنا پتہ نہ تھا
اب کے کچھ اس طرح سے بھی آئی کنولؔ بہار
سارے چمن میں ایک بھی پتہ ہرا نہ تھا
غزل
نظروں کے گرد یوں تو کوئی دائرہ نہ تھا
ڈی ۔ راج کنول