نزدیکیوں میں دور کا منظر تلاش کر
جو ہاتھ میں نہیں ہے وہ پتھر تلاش کر
سورج کے ارد گرد بھٹکنے سے فائدہ
دریا ہوا ہے گم تو سمندر تلاش کر
تاریخ میں محل بھی ہے حاکم بھی تخت بھی
گمنام جو ہوئے ہیں وہ لشکر تلاش کر
رہتا نہیں ہے کچھ بھی یہاں ایک سا سدا
دروازہ گھر کا کھول کے پھر گھر تلاش کر
کوشش بھی کر امید بھی رکھ راستہ بھی چن
پھر اس کے بعد تھوڑا مقدر تلاش کر
غزل
نزدیکیوں میں دور کا منظر تلاش کر
ندا فاضلی