نظر اٹھی ہے جدھر بھی ادھر تماشا ہے
بشر کے واسطے جیسے بشر تماشا ہے
زمیں ٹھہرتی نہیں اپنے پاؤں کے نیچے
پڑاؤ اپنا ہے جس میں وہ گھر تماشا ہے
یہاں قیام کرے گا نہ مستقل کوئی
ذرا سی دیر رکے گا اگر تماشا ہے
فگار ہو کے بھی رکھے گا آبروئے نمو
نگاہ زر میں جو دست ہنر تماشا ہے
اے موسموں کے خدا بھید یہ کھلے آخر
نگاہ شاخ میں کیسے شجر تماشا ہے
نہ بال و پر ہیں میسر نہ اذن گویائی
تو اس کے معنی ہیں اپنی سحر تماشا ہے
ملا نثارؔ ترابی سرائے حیرت سے
وہ آئنا جسے اپنی نظر تماشا ہے

غزل
نظر اٹھی ہے جدھر بھی ادھر تماشا ہے
نثار ترابی