EN हिंदी
نظر اٹھا دل ناداں یہ جستجو کیا ہے | شیح شیری
nazar uTha dil-e-nadan ye justuju kya hai

غزل

نظر اٹھا دل ناداں یہ جستجو کیا ہے

تلوک چند محروم

;

نظر اٹھا دل ناداں یہ جستجو کیا ہے
اسی کا جلوہ تو ہے اور روبرو کیا ہے

کسی کی ایک نظر نے بتا دیا مجھ کو
سرور بادۂ بے ساغر و سبو کیا ہے

قفس عذاب سہی بلبل اسیر مگر
ذرا یہ سوچ کہ وہ دام رنگ و بو کیا ہے

گدا نہیں ہیں کہ دست سوال پھیلائیں
کبھی نہ آپ نے پوچھا کہ آرزو کیا ہے

نہ میرے اشک میں شامل نہ ان کے دامن پر
میں کیا بتاؤں انہیں خون آرزو کیا ہے

سخن ہو سمع خراشی تو خامشی بہتر
اثر کرے نہ جو دل پر وہ گفتگو کیا ہے