نظر اس پر فدا ہے جس کی تابانی نہیں جاتی
کوئی عالم ہو جلووں کی فراوانی نہیں جاتی
تصور سے بھی ان کی جلوہ سامانی نہیں جاتی
پڑے ہیں لاکھ پردے پھر بھی عریانی نہیں جاتی
نماز عاشقی مجھ پر بلائے ناگہاں گزری
تمہارے آستاں تک میری پیشانی نہیں جاتی
وجود زندگی اک کھیل ہے دو چار لمحوں کا
حقیقت آدمی سے اس کی پہچانی نہیں جاتی
ستاروں میں بہاروں میں نظاروں میں ہزاروں میں
وہی تو ایک صورت ہے جو پہچانی نہیں جاتی
سفینے آنسوؤں کے تیرتے رہتے ہیں آنکھوں میں
کسی صورت ہمارے دل کی طغیانی نہیں جاتی
تمنا خوب جانے ہے تبسم ان کے ہونٹوں کا
مگر زیر تبسم فتنہ سامانی نہیں جاتی

غزل
نظر اس پر فدا ہے جس کی تابانی نہیں جاتی
حسرت کمالی